میرے محسن، میرے یاور !تحریر؛ محمّد عدنان انجم ۔۔۔موبائل نمبر 0320.7780152



All the world's a stage,
And all the men and women merely players;
They have their exits and their entrances,
And one man in his time plays many parts,

١٥٩٩ میں آنجہانی ویلیم شیکسپئیر نے اپنے

"As You like it "شہرا آ فاق کامیڈی ڈرامے

کے سکپرٹ میں وه یادگار لا ئنز لکھیں جو
چارصدیوں کے گزرنے کے بعد بھی امر ہیں ۔اور شاید رہتی دنیا تک امر رہیں۔ان لائنز میں شیکسپیئر دنیاکوایک اسٹیج ڈرامےجبکہ مرد و زن کو مختلف کرداروں سے تشبیه دی تھی۔جس طرح کسی اسٹیج ڈرامےکو پرفار م کرنے میں کئی افرادحصہ لیںتےہیں جومختلف رولز کو ادا کرتے ہیں ۔بالکل اسی طرح ہر انسان اپنی زندگی میں کئی رولزکو ادا کرتاہے۔یہ رولز پیدائش سے موت تک، زندگی کے مختلف روپ اور تبدیلیوں پر مشتمل ہوتےہیں۔مزید وضاحت کے لیےوه انسانی زندگی کے ان روپ اور تبدیلیوں کو سات حصوں میں تقسیم کر تاہےجو بچپن سے شروع ہوکر جوانی ،جوانی سے بڑھاپے اورپھربڑ هاپے سے موت تک کی ہیں۔
اگر بچپن کی بات کی جاۓ تو بچپن تمام انسانی زندگی کا سب سے خوبصورت اور دلکش دور ہوتا ہے ۔
بچپن کا دور کتنا دلکش اور حسین ہوتا ہے ۔اس کاٹھیک اندازہ بچپن گزرنے کے بعد یعنی جوانی یا پھربوڑھاپے میں ہوتا ہے۔بچپن میں کھیلتے،کودتےاورشرارتیں کرتےہوئےنہ جانےکب ہم بڑے ہو جاتے ہیں۔اس کا کچھ پتا ہی نہیں چلتا۔نیز اس کا احساس شایدبچپن گزرنے کے بعد ہوتا ہے۔
بچپن کی ایک خوبصورتی یہ بھی ہے ۔کہ
آدمی چاہےعمر کےجس حصے میں ہو ۔وه اپنے بچپن کی زندگی کو نہیں بھولتا ۔بچپن کی حسین یادیں اسے بچپنے کا احساس دیتی ہیں ۔جن میں گم ہوکروه چند لمحوں کے لیے پرسكون اور پر لطف محسوس کرتا ہے ۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ
ہم کہیں پراگر اکیلے ہوں اور بوریت محسوس کر رہے ہوں ۔تواچانک ایک تخیل باد سموم کی طرح آتا ہے۔اور
اسے ماضی میں گهسیٹ لے جاتا ہے ۔وہاں پر بچپن کی خوبصورت اور انمٹ یادشتو ں
کی ایک طویل فہرست اس کا استقبال کرتی ہے ۔
اللّه پاک نے انسان کو اشرف المخلوقات بناکر تمام مخلوقات پرفو قیت دی،اسے عقل وفهم عطا کی۔تاکہ وه اچھائی اور برائی میں تمیز کر سکے۔نیز وه اچھائی والے راستے کو منتخب کر کےاس پر کار بندرہے ۔نیز اگر زندگی کے کسی موڑ پر
خدا نخواستہ اس سے کوئی غلطی سرزد ہو جاۓ تو شیطان کی طرح اس پر ڈٹ نہ جاۓ بلکہ اگر اس کو معلوم ہو جاۓ کہ وہ غلطی پر ہے تو فورا اپنی غلطی کو تسلیم کرے اس پر شرم سارہو اور دوبارہ وه غلطی نہ دہرا نےکاعزم معصمم
کرے ۔غلطی سرزد ہو جانا شاید اتنا بڑا گناہ نہیں ۔جتنا غلطی پر ہوتے ہوئے اس پر ڈ ٹ جانا و دفاع کرنا ہے ۔غلطی کرنا اور معافی مانگنا انسانی روش جبکہ غلطی کرکے ڈٹ جانا شیطانی روش ہے ۔ زندگی میں اگر لا علمی یا انجانے میں کسی سے کچھ زیادتی ہو جاۓتو فورااس بندے اور اللّه کے حضور معافی مانگ لینی چائیے۔اس سےپہلےکہ پانی سر سے گزر جاۓ اوروه غلطی عمربھر کا پچھتاوا بن کر رہ جاۓ ۔

کسی بھی شخص کے بچپن کی طرح میرا بچپن بھی ماضی کی یاداشتوں کی ایک لمبی فہرست کاحامل ہے۔ان یاد داشتوں میں اکثر تو خوشگوارجبکہ بعض پریشان کن اور درد ناک بھی ہیں ۔ان ناخوشگوار یاداشتوں میں ایک ایسی تلخ و درد ناک یاداشت سکول کی تبدیلی کی ہے ۔
سکول سے شفٹنگ(تبدیلی) کل کی بات معلوم ہوتی ہے ۔جب ٹیچرز کی کمی کی وجہ سے پانچوی کلاس میں اپنے دوسرے تمام کلاس فیلوز کی طرح گورنمنٹ پرائمری سکول خان زمانوالہ کوبوجه مجبوری چھوڑ کرگورنمنٹ پرائمری سکول اڈےوالہ میں شفٹ ہونا پڑا ۔
شاید ہماری کلاس کی بدقسمتی تھی کہ جب ہم پانچوی کلاس میں پروموٹ ہوۓ تو سکول میں اچانک ٹیچرز کا آپس میں ایک جھگڑا ہوا جسکی وجہ سے چند ٹیچرز کو پوسٹنگ کرواناپڑی۔ باقی جو ایک دو ٹیچرز بچ گئے تھے ۔انہوں نے ہماری کلاس کو پڑھانے سے ہیڈ ماسٹر صاحب سے معذرت کرلی۔ان وجوہات کی بناپرپانچوی کے پہلے پانچ ماہ بغیر پڑھے ضائع ہو گئے ۔دوسرااب جس سکول میں میرا داخله ہوا تھا چونکہ وہ اسکول اورٹیچرز صاحبان میرے لئے نئے تھےاسلیے ان کے پڑھانے کے طریقے سے میٹ کرنا اور سکول کے ماحول سے مطابقت اختیار کرنے میں وقت کاضائع ہونابھی ایک فطری عمل تھا۔ان تمام مسائل اور مشکلات کی موجودگی میں میرا پانچوی پاس ہوجانا،دیوانے کا خواب معلوم ہورہاتھا ۔
موجودہ سکول میں چونکہ پانچوی کے بچوں کی تعداد زیادہ تھی۔اسلیے پانچوی کلاس کو دو سیکشنزیعنی اے اور بی میں منقسم کیا گیا تھا ۔میرا داخلہ بی کلاس میں ہوا۔یعنی بی کلاس اب میری نئی کلاس تھی۔
پہلے دن جب کلاس میں پہنچا تو پتا چلا کہ ہماری کلاس کے ٹیچر صاحب آج نہیں آئیں گے۔مزید معلوم کرنے پر پتا چلا کہ انہوں نےایک ہفتہ کی چھٹی لی ہوئی ہے ۔تاکہ وه اپنا مذهبی اجتماع جو کہ لاہور، راونڈ میں منعقد ہورہا تھا کو اٹینڈکر سکیں ۔دل پاس ،فیل کی فکر سے یکسربے نیازاس بات پرخوش تھا کہ لوایک ہفتہ پھر مزے ہو گئے۔ٹیچر صاحب کی عدم موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خوب کھیلے گے ۔ اس ایک ہفتے میں تمام کلاس فیلوز نے خوب مزے کیۓ اور خوب کھیلے ۔میں چونکہ نیا تھا تو میری تمام کلاس فیلوزسے کھیل کود کے درمیان جان ،پہچان اور ایک، دوکلاس فیلو زسےتو دوستی بھی ہو گئی۔ان دوستوں نے بتایا کہ ٹیچر صاحب بڑ ے اچھے بندے ہیں ۔وه نصابی کتابوں کے پڑھانے کے ساتھ ساتھ وقتا"فووقتا" دینی رهنمائی بھی کرتے رہتے ہیں ۔نیزوضو،نماز کے مسائل و طریقہ سکھا نے کے ساتھ ساتھ نماز پڑ ھنے کی ترغیب بھی کرتے ہیں۔چونکہ میرا تعلق ایک کٹر بریلوی خاندان سے ہے ۔اسلیے نہ جانے دل کے کسی کونے میں ایک نفرت نہ جنم لیا ۔ذہن یہ ماننے کو شاید
تیار نہیں تھا کہ کیسے ایک ایسے ٹیچر سے پڑھاجائے جو نہ صرف خوددیو بندی مكتبه فکر سےتعلق رکھتا ہے ۔بلکہ کلاس میں
تبلیغ بھی کرتاہے ۔
ٹیچر صاحب کی اجتماع سے واپسی پرایک
مہینہ کے اندر دو تین ایسے واقعات ہوئے جس کی وجہ سےٹیچرصاحب اور میں ایک دوسرے سےشدیدمتنفر ہو گئے۔پہلے وقعہ اس وقت پیش آیا جب میں ظہر کی نمازپڑ ھنے
مسجد میں گیا۔ چونکہ سردیوں کے دن تھے اور چھٹی لیٹ ہوتی تھی اسلیے تمام طالب علم
ظہر کی نمازسکول سے متصل مسجدمیں پڑ ھتے تھے۔ ایک
دن تمام نمازی سنتیں پڑھ کر جماعت ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔کہ پیش امام صاحب نہ آے ۔شاید وه کسی کام سےکہیں گئے ہوے تھے۔امام صاحب کی غیرماجودگی کوملحوظ خاطر رکھتے ہوئےامامت کی ذمہ داری ہمارے ٹیچر صاحب جو ہمیں پانچوی پڑھاتےتھےکو سونپی گئی۔میں پہلی صف میں بیٹھا تھایہ برداشت نہ کرسکا کہ کیسے ایک دیو بندی غیر مقلدامام کے پیچھے نماز پڑھوں۔انہیں سوچوں کے پیش نظر ،جماعت کے وقار کو بالا طاق رکھتے ہوۓ۔میں سرعت سے اٹھا اور صفوں کو چیرتا اور نمازیوں کو پھلانگتا ہوا غصے سے مسجد سے باہر چلا گیا۔میرا یہ قبیح عمل ٹیچر صاحب کو بہت نا گوار گزرا۔اگرچہ ٹیچر صاحب نےمیری اس غلطی کی توجیح تو نہ پوچھی ۔لیکن مجھے یہ لگا کہ شایددل میں انہوں نے یہ بات رکھ لی ہے۔وه اگر مجھے کسی بھی غلطی یا کوہتائی پر مارتے یا برا بھلا کہتے تو مجھے لگتا کہ شا ید وه میری اسی بات کا غصہ مجھ پر نکال رہے ہیں ۔
دوسرا واقعہ کچھ یوں ہےکہ ایک دن ٹیچر صاحب نے مجھےکچھ انڈے جو تقریبا" تین درجن کے قریب تھے ۔گھر سے لیکر آنےاور منڈی میں جاكر بیچنےکاحکم دیا۔ جب میں
وه انڈے ان کے گھر سے لیکرمنڈی جارہا تھاتو اچانک راستے میں پاؤں پھسل گیا ۔جس کے نتیجےمیں تمام انڈے ٹوٹ گئے۔چونکہ سردیوں کے دن تھے اور انڈےکافی مہنگے۔سو ٹیچر صاحب کو میری وجہ سے کافی نقصان اٹهانا پڑا۔لیکن دل میں اس وقت اسکی ندامت نہ تھی کہ مجھ سے انڈے ٹوٹے ہیں۔بلکہ میں تو دل میں یہ سوچ رہا تھاکہ انہوں نے یہ کا م بطور سزا میرے ذمے لگا یاہو گا ،سو اچھا ہواکہ یہ کام پایا تکمیل کو نہ پہنچا۔میں اپنی اس لغزش پر سزا کا مستحق تھا ۔لیکن غیر متوقع طورپر ٹیچر صاحب میری اس غلطی پر بالکل ناراض نہ ہوے۔بلکہ الٹا میری ڈھارس بندھائی۔اور بولے کہ ہونی کو کو کون ٹال سکتا ہے؟؟؟ لیکن مجھے اس کے بعد ہمیشہ یہی لگتا رہا کہ شاید وه اوپرسے دکھا واکر رہے تھے۔اندر سے وه شدید ناراض ہوں گے ۔نیز دل میں وه یہ بھی ضرور سوچ رہے ہونگے کہ یہ نقصان میں نےجان بوجھ کرکیا ہو گا ۔
اس واقعے کے چند دن بعد ٹیچرصاحب نے کلاس کے ڈیلی ٹیسٹ لینا شروع کر دیئے۔کسی دن میتھ کاتوکسی دن اردوکا اور کبھی سائنس کا ٹیسٹ لیتے۔مجھے یہ لگتا کے یہ سارا سلسلہ مجھ سے انتقام کا ایک زریعہ ہے۔جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے۔ کہ ہم پانچ ماہ ٹیچرز کی عدم دستیابی کی وجہ سے پچھلے سكول میں نہ پڑھ سکے تھے ۔لہٰذا مدرجه بالا ٹیسٹوں میں بری طرح فیل ہونا اور مار کھانامیرا ڈیلی کا
معمول بن گیا ۔
ٹیچرصاحب کی روز ،روز کی مار نے میرےدل ودماغ میں ان کے لیے نفرت اور حقارت کے جذبات کو مزید بڑھاوا دیا ۔اور دل میں دو طرح کے خیالات نے ڈیرے ڈال دئیے ۔پہلا خیال سکول سے بھاگنےاورپڑ ھائی کو ہمیشہ ،ہمیشہ کیلیے چھوڑ نےکاآتا ۔جبکہ دوسرا خیال زور و شور سے محنت اور پڑھائی کرنےکا آتا۔چونکہ والد صاحب تعلیم کے بارے میں بہت سخت تھے۔ لہذاپہلے خیال کو ذہن سے جھٹک کر دوسرے پر سختی سے کار بند ہو گیا ۔ دن رات کی کھٹن محنت کے سبب دو تین مہینوں کے اندر میں اس قابل ہو گیا۔کہ کسی نہ کسی طرح ٹیسٹ پاس کر لیتا
اور مار کھانے سے بچ جاتا ۔ٹیسٹوں میں پاس ہونے کی وجہ مار کھانے کا سلسلہ تھما تو پڑھنے میں اور بھی مزا آ نے لگا ۔چو نکہ سالانہ امتحان قریب تھے ۔تو میں نے محنت کرنا اور بڑھا دی ۔دن تیزی سے گزرتے گئے۔اور سالانہ امتحان بھی دن بدن قریب آ تے گئے ۔وه خوش قسمت دن بھی آن پہنچا۔جس دن ہمارا امتحان منعقد ہوناتھا ۔دل میں عجیب سی سرشاری تھی۔اوربار، باریہ خیال آرہا کہ فلاں دن سکول سے اور ٹیچر صاحب سے جان چوٹ جاۓ گی ۔
ایگزام کے دن اللّه پاک کے کرم سےتمام پیپرکافی اچھے ہوئے۔طبیعت بڑی خوش تھی کہ تمام پیپرز ایک ہی دن میں ہوگئے ہیں۔ آج جی بڑی مدت کےبعد آزاد محسوس کررہا تھا۔دل اس بات پربھی بڑا شادماں تھاکہ سکول و ٹیچرسے جان چوٹ چکی ھے۔ اور دوسرارزلٹ آ نے تک چھٹیاں بھی ہیں۔وہ خوشی الگ تھی۔ ایگزام ہونے کے 
کچھ دنوں بعدگندم کی کٹائی کا سیزن شروع ہو گیا۔والد صاحب چونکہ زمیندارتھے اور میں فارغ ۔سووالدین کے ساتھ گندم کی کٹائی میں جت گیا ۔
   ایک دن ہم گندم کاٹ رہے تھے تو میرے کچھ  کلاس فیلوز ،میرے کزن کے ساتھ  اس جگہ آ پہنچے۔چونکہ عموما" گندم کی کٹائی میں پرانےاور بوسیدہ کپڑے پہنے جاتے ہیں ۔ اسلیے میں بھی پھٹے،پرانےکپڑوں میں ملبوس تھا ۔جبکہ دوسری طرف میرے تمام کلاس فیلوز اچھے اور چمکدار کپڑےپہنے ہوئےتھے ۔میں اپنے حلیه اور لباس کی وجہ سے ان سے کافی شرم سارہوا۔ دل میں اپنےاس کزن کو کوستا  
رہا ۔جو ان کو کھیتوں میں لیکر آیا تھا۔لیکن جب انہوں نےآ نے کی وجہ بتائی تو میں سن کرششدر رہ گیا ۔ میرےکلاس فیلوزکے مطابق آج پانچویں کا رزلٹ تھا۔اور  میں نےاپنے سکول میں ٹاپ کیاتھا نہ صرف اپنےسکول میں بلکہ پورے ڈسٹرکٹ میں بھی ٹاپ کیاتھا۔وه  یہ پیغام لیکر آئے تھے ۔ کہ ہیڈ ماسٹر صاحب اور تمام ٹیچرز صاحبان کا حکم ہے ۔کہ جلد از جلد سکول پہنچو۔کیونکہ انکے مطابق ڈسٹرکٹ  
ایجوکیشن آفیسر ہمارے  سکول میں  
تھوڑی دیر تک پہنچنے والے تھے ۔دراصل  ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسر پوزیشنز ہولڈر طلبہ میں خود آ کر انعامات بانٹنا چاہتے تھے ۔  
ہم جب سکول پہنچےتومیں نے ٹیچرصاحب کو خلاف معمول نہا یت ہی خوش پایا۔حالانکہ  میرا خیال تھا کہ وہ میری اس کامیابی پر کافی رنجیدہ اور دکھی ہوں گے۔ان کو خوش دیکھ کر میں یکسر  پریشان ہو گیا۔مجھے اپنی خوشی پھیکی لگنے لگی۔انکی خوشی کو دیکھ کر  ایسے لگا جیسے میں نقل لگا کر پاس ہوا ہوں۔جب ٹیچر صاحب کی نظر مجھ پر پڑی تو وه میرے پھٹے، پرانے کپڑےاور حلیہ دیکھ کرمجھ پر بر ہم ہو گئے۔ستم ظریفی یہ تھی کہ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسر صاحب کی تشریف آوری کا وقت بالکل قریب تھا۔جبکہ میرا گھر سکول سےکافی دور۔سو وقت كی قلت كیوجه سےاچھےکپڑے پہننےکا بندوبست نہ ہو سکا ۔اور انہیں پھٹے،پرانے کپڑوں کے ساتھ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسر صاحب اور دوسر ے تما م ٹیچرز حضرات سے  ملا اور اپنی شاندار کامیابی پر  داد و تحسین پائی۔رزلٹ کے دن گھر واپسی پر میرے پاس مختلف قسم کے تحائف اور ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسر کی جانب سے انکے ہاتھ کا لکھاتعریفی سرٹیفکیٹ تھا ۔جس میں میرا حوصلے بڑھانےکیلیے سنہری مستقبل کی پیش گویی اور سخت محنت کرنے کے متعلق   
کافی باتیں  لکھی ہوئی تھیں۔
میں نے جس سکول سے  پانچوی کلاس امتیازی  نمبرز سے پاس کی تھی۔وہ ایک پرائمری اسکول تھا۔چو نکہ میں اب چھٹی کلاس میں پہنچ چکا تھا۔ لہذا پرائمری اسکول سے ہائی سکول میں شفٹ ہو گیا ۔ دل میں ٹیچرز صاحب کےخلاف نفرت، سکول تبدیل کرنے کے باوجود ختم نہ ہوئی ۔بلكه شاید اس میں کمی کی بجاۓاورزیادتی ہوئی ۔یہ نفرت اتنی بڑھ چکی تھی کہ میرا پانچوی کاٹیچر جب مجھے  کہیں ملتا تو ان سے ملنا تو دركنارمیں وه  راستہ ہی بدل لیتاجس پر ٹیچر صاحب چل رہے ہوتے۔نیز میں نفرت میں اتنا اندھا ہو چکا تھا کہ اگر  اس سکول کےکسی اور ٹیچرسےبھی  کہیں آمنا سامنا ہوجاتا تودل میں ایک نفرت کا طوفان کھڑا ہو ہو تا اوراس ٹیچر صاحب کو نظر انداز کر کے ، بغیر  سلام و کلام کے آگے بڑھ جاتا۔ حتی کہ مزید نفرت کی انتہا دیکھئےکہ ایک اسٹیج پر میں پرائمری اسکول کے تمام ٹیچرزکواپنے سے كمتر سمجھنے لگا۔دن گزرتے گئےمیں نے میٹرک کرنے کے بعد ایف ایس سی  اور پھر بی اے کیا۔ اسکے بعد سرکاری ملازم ہو گیا۔ ملازمت کے ابتدائی دنوں میں بعض وجوہات کی بناپر ہمیں اس گاؤں سے هجرت کرنی پڑی ۔ ملازمت اورگاؤں سے هجرت کے سبب  ٹیچر صاحب سے  پھر دس پندرہ سال  تک ملاقات نہ ہو سکی۔
  وہ کہتے ہیں ناوقت سب سے بڑا مرہم ہے ۔اور وقت کے ساتھ ،ساتھ مہلک سے مہلک  زخم  بھی بھر جاتے ہیں۔بالکل اسی کے مصداق وقت کے ساتھ،ساتھ نا قابل قبول انسانی رویے مثلا  ،غصہ، ناراضگیاں اور گلےشکوے  بھی وقت کی نزرہوکردھوئیں کی شکل میں فضا  میں تحلیل ہو جاتے ہیں۔لہذامیں بھی جب فارغ وقت میں  کبھی ان گزرے واقعات کے بارےمیں سوچتاتو سراسر اپنےآپ کوہی مورد الزام ٹھراتااور خود کوہی مجرم پاتا۔لہذاجب جرم خود پر ثابت ہوا۔ اور ضمیر نے اپنے آپکو مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کیا۔تو ٹیچر صاحب سے وه رنجشیں اور نفر تیں بھی ریت کی دیوار کی طرح ڈھ گئیں۔بلکہ ضمیر نے اقبال جرم کرنے کے بعد ان کی جگہ عز ت ،محبت اور تکریم کو بھر دیا۔اب ضمیر  بار بار ٹیچر صاحب اور اللّه کے حضور معافی مانگنے کا تقاضا کرتا۔تاکہ ماضی کی ان تلخ یادشتوں سے دائمی طور پرچھٹکارا حاصل کیاجا سکے ۔جب کہ دوسری طرف انا کا جھوٹا خول ماضی کے ان ناپسدیدہ واقعات کے متعلق  ابھی تک دل کویہ جھوٹی تسلی دیتا کہ تم  اس وقت بالکل حق پر تھے ۔اور مزیدکہتا کہ تم نےبالکل درست کیا کے ایک دیوبندی ملا کی اقتادع میں نماز نہ پڑھی۔بھلا کسی غیر مسلکی شخص کی تقلید میں نماز نہ پڑھنا بھی کوئی  جرم ہے؟؟؟ ۔اور اس  دن تم نے کون سے جا ن بوجھ کر انڈے توڑے تھے؟؟؟۔بلکہ تمہارا تو پاؤں غلطی سے پهسل گیا تھا ۔ یہ  شیطانی بڑ هاوےکچھ دیر کے لیے تو مجھے    میرے حق پر ہونے کی دلیل  دیتے ۔لیکن تھوڑی دیر بعد ضمیر ماضی کے ان  واقعات پر پھر ملامت کرناشروع ہوجا تا۔
 ایک دن فون پر اپنے ایک دوست  سے بات کر رہا تھا۔جس کا تعلق میرے  پورانےگاؤں سے تھا۔اتفاق سے وہ ہمارے پانچوی کے ٹیچر صاحب  کے پڑوسی بھی تھے۔باتوں ، باتوں میں  پتا چلا کہ ہمارے وه ٹیچر صاحب سکول سے اب ریٹائر ہو چکے ہیں۔اور زیادہ تر وقت مسجد میں گزاتے ہیں ۔
کچھ دنوں بعدچھٹی پر گھر آ یا۔تو ایک دن دوستوں کی  فرمائش پر ان کو ملنے  اپنے آبائی گاؤں جانے کا پروگرام بنایا۔مقررہ دن جب میں اپنے گاؤں پہنچا، تو راہ چلتے ہوے  میری نظراچانک ایک سبزی کی دکان پر پڑ ی ۔ جہاں وہی ٹیچر صاحب کچھ تبلیغی جماعت کے ساتھیوں کے ساتھ دعوت و تبلیغ میں مصروف کھڑے تھے ۔ماضی کے گزرے تمام واقعات ذہن پر ایک دفعہ پر از بر ہو گئے ۔دل زور ،زور سے دھرکنے لگا ۔ضمیر نے معافی کا تقاضا کیا، پردماغ کے کسی کونے میں ایک انجانا  خوف یہ بھی تھا کہ اگر انہوں نے ماضی کی غلطیوں کو مد نظر رکھتے ہوئےآج دهتكار دیا تو پھر کیا بنے گا؟؟؟اسی شش و پنج میں نہ چاہتے ہوے بھی قدم ان کی جانب بڑھ گئے۔ہاتھ باند کر  میں بھی سامعین  میں کھڑا ہو گیا۔ اور دین کی باتیں سننے لگا ۔جب  ٹیچر صاحب درس دینے سے فارغ ہوچکےتو ان سےگلے ملا۔ ماضی کے معاملا ت پر معافی کی درخواست کی۔تو بولے خداراشرمندہ نہ کریں،اورمزید فرمایا کہ میں تو آپ سے کبھی ناراض ہی نہ تھا۔سواسلیے معافی کا سوال ہی نہیں بنتا۔آج مجھ پر باور ہوا تھا کہ میری ناراضگی یک طرفہ تھی ۔جس پر ضمیر نے مجھ اورزیادہ ملامت کیا ۔انہوں نے گھر پر ساتھ چلنے اور چاۓ پینے پر اسرار کیا ۔ بھلا میں انکی پر خلوص دعوت کو  کیسے رد کر سکتا تھا ؟؟؟ سو چاۓ پینے انکے ساتھ ہو لیا۔ میں 
چاۓپینے کے دوران مسلسل یہ سوچتا رہا کہ میں نے كیونكر ایک ایسے  شخص کے بارے میں دل کے اندر بغض و بد گمانی کو پروان  چرہایا۔جو میرا حقیقی محسن تھا۔اور آج میں جس مقام پر ہوں یہ انکی ہی تو محنت کا ثمر ہے ۔نیز انکی بے مثال محنت و لگن کے سبب ہی  نہ صرف میں پانچوی کلاس کے امتحان میں یقینا"فیل ہونے سے بچا۔ بلکہ اس امتحان میں امتیازی  کامیابی بھی حاصل کی۔ایک ایسی کامیابی جس کے سامنے شاید دوسری ساری کامیابیاں پھیکی پڑجائیں۔ دل مسلسل سوچ رہا تھا کہ ایک ایسے شخص سےکیونکر  نفرت کی جو محبت کا پیکر تھا ۔اور جس نے آپکی ہر لمحے رهنمائی کی نیز انکی سكهائی ہوئی باتیں نہ صرف تعلیمی  دور کے لیے مشعل راہ بنیں ۔بلکہ آج کے دور کے لیے بھی رهنمائی کاایک روشن مینارہ بنیں ۔جنہوں نےنہ  صرف میرے اندرپڑ ھنے کی لگن کو اجاگر کیا ۔بلکہ یہ بھی باور کروایا کہ تم کر سکتے ہو ۔ 
رہی بات اسلام کی تو وه کب  نفرت کا درس دیتا ہے ؟؟؟بلکہ اسلام تو ایک ایسا مذہب ہے جو رواداری اور بردباری کا درس دیتا ہے۔وه تو غیر مسلموں کے ساتھ بھی حسن سلوک اور محبت کادرس دیتا ہے ۔نیز  اسلام کب مسلكی بنیادوں پر تفریق کا درس دیتا ہے ؟؟؟ بلکہ اسلام تو کہتا ہے آ پس کی نفرتوں کو ختم کر کے اللّه کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو اور یک جان بن جاؤ ۔تاکہ دسشمنان اسلام کے دلوں میں تمہارا رعب و دبدبہ بیٹھے۔یقین کریں ہم آ پس کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں کو معاف کر کے نہ صرف خود خوش و خرم زندگی گزار سکتے ہیں ۔بلکہ معاشرے  میں رہنے والےتمام افراد  کوبھی خوش رکھ سکتے ہیں ۔بعض اوقات ہم خود پسندی اور تفرقه بازی کی بھینٹ چڑھ  کے ایسےافرادسے  بھی نفرت کرنے لگ جاتے ہیں ۔جو ہماری زندگی کی  کامیابی کے اصل حقدار ہوتے ہیں ۔ 
 
ٹیچر صاحب کے گھرسے نکلا توبہت خوش تھا۔کیونکہ ضمیرپربوجھ جوایک عرصے سے لدا ہوا تھا۔ آج میں نے اسے اتار پھینکا تھا ۔
 

Comments