اصلی اچھو ت !!!تحریر؛ محمّد عدنان انجم ۔۔۔موبائل نمبر 0320.7780152
سنو ! میری شادی پر آؤگی نا ۔۔۔اور ہاں وہاں پر ایسے ناچنا کہ میرے تمام دوست خوش ہو جائیں۔۔۔ تمهاری پر فارمنس کو لوگ مدتوں یاد رکھیں۔۔۔جانو دیکھو !ہماری دوستی کی آج ساتوی سالگرہ ہے ۔۔۔اور تمہیں یاد بھی نہیں ۔۔۔چلواٹھو، آج کھانا آپ کی پسند کے ریستوران سے ، اپنے پیسوں سے کھلاوں گا ۔۔۔چلو نا ۔۔۔اب جلدی بھی کرو۔۔۔حلیہ ایسے بنایا ہوا ہے کہ جیسے پچھلے ایک ماہ سے نہانا تو دركنار منہ بھی نہ دھویا ہو ۔۔۔ شاباش اب جلدی بھی کرو !!!۔۔۔ اور ہاں یاد آیا ،اسکے بعد میں اور علینہ نے جیولری شاپ پربھی جانا ہے۔۔۔سنار کا فون آیا تھا کہ رہا تھا آپ کا آرڈر تیار ہے ۔۔۔آ کے لے جاۓ۔۔۔ویسے بھی شادی میں کتنے دن بچے ہیں مرکہ صرف دس ہی دن تو باقی ہیں۔۔۔جلدی کرو ۔۔۔ادھر علینہ بے چاری بھی راہ تكتی ہو گی ۔۔۔میں جو بخارکی حد ت سے تپےجا رہی تھی ۔۔۔بس اتنا ہی بول سکی ۔۔۔آج سالگرہ ہے؟؟؟ میں تو بھول ہی گئی تھی۔۔۔ اور ہاں سالگرہ کا کیا ہے ؟؟؟۔۔۔بعد میں سیلیبریٹ کر لیں گے ۔۔۔آپ جائیں علینہ انتظار کر رہی ہو گی ۔۔۔میرے جواب کے رد عمل میں وه جلدی سے اٹھا ،جیسے وه مجھ سے اسی جواب کی توقع کر رہا تھا ۔۔۔خدا حافظ کہا تقر یبا دوڑتے ہوےگھر کی دهلیز پار کی اور نظروں سے اوجھل ہو گیا ۔۔۔اسکے جاتے ہی میری ضبط و حوصلے کی تمام دیواریں بھی بوسیدہ ریت کے میناروں کی طرح ڈھ گئیں۔۔۔آنكهوں سے آنسو ایسے ا چھل پڑے جیسے اچانک کسی صحرا میں چشمے ابل پڑیں اور میں دهاڑیں مار مار کر رونے لگی ۔۔۔
سوچوں کا رخ ماضی کی جانب گیا۔۔۔تو ماضی کے تمام واقعات ایک ،ایک کر کےدماغ کی پردہ سکرین پر جلو ہونےلگے ۔۔۔ پیدا ہونے کے بعد ہوش سنبھالتے ہی ماں،باپ بہن اور بھائیوں کے ظلم کے زیر عتاب رہی ۔۔۔ جو شخص گھر والوں کے ظلم وجبر کا شکار ہو تو باہر والے کہاں پیچھےرہتے ہیں ۔۔۔نتیجتا اپنوں کے ظلم کی دیکھا دیکھی رشتے داروں اورہمسایوں نے بھی تنگ کرنا اور طعنے دینا شروع کردیا، جس سے راہ چلنا بھی دشوارہو گیا۔۔۔راہ چلتے ہوئےچھیڑنااور تنگ کرناروز کا معمول بن گیا ۔۔۔ہر دن جبر و زیادتی کی ایک نئی داستان رقم کی جاتی۔۔۔جب زندگی ایک سزا سی بن گئی اور ہر طرف مایوسیاں پر پھیلا ےنظرآئیں۔۔۔تو ایک رات گھر والوں کو سوتے میں چھوڑ کر گھر کو ہمیشہ کے لیے خیر آباد کہ دیا اور رات کے اندھیرے میں فرار ہوگئی۔۔۔
ایک لڑکی کاگھر چھوڑنا ؛ بلخصوص ایسی لڑ کی کا جو نہ ہی پوری لڑکی ہو ۔۔۔اور نہ ہی پورا لڑکا ۔۔۔بلکے آسان لفظوں میں وه درمیانی کیفیت کی حا مل اور لڑ کی نما ہوتو ۔۔۔ بہت مشکل ہے ۔۔۔کچھ دن راستوں پر بھٹکنے اور دھکے کھانے کے ۔۔۔ایک دن ایک سائبان مسیر آیا ۔۔۔جو دراصل میری کمیونٹی کے لوگ تھے اور کم و بیش میری طرح پس منظر کے حا مل تھے ۔۔۔ ان کے ساتھ عارضی بسیرا کر لیا ۔۔۔ا نہوں نے زندہ رہنے اور محتاجی سے لڑ نے کے کے لیے ۔۔۔ نا چنے کا ہنر سکھا دیا ۔۔۔ اب میں زندہ رہنے اور پیٹ کا جہنم بھرنے کے لیے باقاعدگی سے شادیوں اور كنسرٹ پر ناچتی اور بدلے میں لوگ مجھ پر پیسہ نچھاور کرتے ۔۔۔ وه کہتے ہیں نا۔۔۔جوانی ہر چیز کو خوبصورت بنا دیتی ہے ۔۔۔میں بھی جب لگ بھگ اٹھارہ سال کی ہوئی ۔۔۔تو خوبصورتی میرے انگ انگ سے پھو ٹنے لگی ۔۔۔اب اناونسر میرے نام کے ساتھ سابقه میڈم اور لا حقه جی لگا تے۔۔۔اسٹیج پر مجھے میرے نام روشنی کے بجاۓ میڈ م روشنی جی کہ کر پكارا جانے لگا ۔۔۔ میں مشہور ہوئی ۔۔۔تو چا ھنے والوں اور محبت کرنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ۔۔۔کچھ منچلوں نے محبت اور دوستی کاجھوٹا راگ بھی الاپا ۔۔۔جن میں کچھ جسم کی بھوک مٹانے اور کچھ مال و دولت کے چکر میں تھے ۔۔۔جب ان پر میری حقیقت عیاں ہوتی تو ایسے بھاگتے ۔۔۔کہ بعد میں ملنے پر پہنچاننےسے بھی انکاری ہو جاتے ۔۔۔ پر ناصر ان سب سے الگ تھا۔۔۔ناصر اور میری پہلی ملاقات یونیورسٹی کے ایک فیسٹیول کے دوران ہوئی ۔۔۔جو آہستہ،آہستہ دوستی اور پھر محبت میں بدل گئی۔۔۔ناصر نے بتایا ۔۔۔وه انگلش لٹر یچر پڑ ھ رہا ہے ۔۔۔وه مجھےآسكر وائلڈ کے شہر آفاق ناول سلومی کے قصے سناتا ۔۔۔ اور بتاتا کہ کیسےاور کیو ں سلومی نے اپنے محبوب کی جان لی تھی ۔۔۔تو کبھی شیکسپیئر کے پلے رومیواورجولیٹ کے قصے سناتااور بتاتا کہ کیا وجوہات تھیں جن کی بنا پر رومیو نے اپنے دل کے عین وسط میں زہر آ لود خنجر اتارا تھا ۔۔۔اور میں اسے شادیوں اور كنسرٹ کے احوال سناتی اور بتاتی کہ لوگ کیسے میری وقتی محبت اور توجه کو حاصل کرنے کے لیے پیسے نچھاور کرتے اور اپنی جھوٹی محبت کا احساس دلاتے ہیں۔۔۔ یونہی دن کٹتے اور سال بیتے رہے ۔۔۔میری ناصر سے دوستی نہ جانب کب اور کیسے محبت میں بدل گئی۔۔۔پتا ہی نہ چلا ۔۔۔اس کا ٹھیک اندازہ مجھے تب ہوا جب اس نے کہا۔۔۔مجھے ایک لڑکی سے محبت ہو گئی ہے ۔۔۔اور وه بھی مجھے چاہتی ہے ۔۔۔ہم عنقریب شادی کرنے والے ہیں ۔۔۔پہلے تو مجھے لگا ۔۔۔کہ شاید وه مذاق کر رہا ہے ۔۔۔پھر دل کے نہ جانے کون سے کونے سے آواز آئی پاگل وه بھی تم سے محبت کرتا ہے ۔۔۔اس لیے تو اتنے عرصے سے تمہارے ساتھ ہے ۔۔۔یہ خیال آ تے ہی دل ایک انجانی خوشی سے بے حال ہو گیا ۔۔۔ایسا لگا کہ شاید خدا پاک نے گزشتہ تمام دکھوں اور تکلیفوں کا مداوا کر دیا ہو ۔۔۔دل خوشی سے پھٹا جا رہا تھا ۔۔۔ایسا لگ رہا تھا کہ ۔۔۔وه ابھی اپنی آہنی بانہوں میں جهكڑ کر کہے گا ۔۔۔روشنی میں تم سے بہت پیار کرتا ہوں ۔۔۔ اور معاشرہ جو بھی کہے مجھے پر واہ نہیں ۔۔۔ ہم ضرور شادی کریں گے ۔۔۔اور کیا تم مجھ سے شادی کرو گی ؟؟؟اور میں سر جهكا کر ہولے سے ہاں بول دوں گی۔۔۔ جب اس نے بتایا کہ وہ جس لڑکی سے محبت کرتا ہے ۔۔۔ اس کا نام علینه ہے ۔۔۔اور وه پیشے کے لحاظ سے ایک ڈاکٹر ہے ۔۔۔تو میرے دل دماغ میں دھماکے اور کانوں سائیں، سائیں کی آوازیں سنائی دینے لگیں ۔۔۔مجھے اپنی آواز کسی گہری کھائی سے آتی ہوئی محسوس ہونے لگی ۔۔۔اس دن سے مجھے اپنے آ پ سےگھن آ نے لگی ۔۔۔ناصر کی محبت نے مجھے ایسے راہ پر کھڑا کر دیا ۔۔۔جس سے آگے زندگی کا تصور ہی ہو لناک ہے ۔۔۔ناصر کی شادی کی دن تک میں روز مرتی اور روز جیتی رہی ۔۔۔ہر ایک دن مجھے ایک، ایک سال کا لگنے لگا ۔۔۔روز مجھے یہ خیال آتا کہ ،کیا مجھے زندہ بھی رہنا چاہئے یا نہیں ؟؟؟۔۔۔ اور کیا میری ناصر کے بغیر زندہ رہنے کی کوئی وجہ بھی ہے ۔۔۔یا نہیں ۔۔۔اور سب سے اہم سوال کیا میں علینه کو برداشت کر بھی پاؤں گی یا نہیں ۔۔۔اور کیا علینه بھی مجھے ناصر کے ساتھ برداشت کر پا ے گی یا نہیں ۔۔۔یہ کچھ ایسے بھیانک سوال تھے ۔۔۔جو سوتے ،جاگتے میرے من میں آتے اور مجھے بےچین کر جاتے ۔۔۔ خدا ،خداکر کے ناصر کی شادی کا دن بھی آن پونچا ۔۔۔اس دن میں خوب دل لگا کر ناچی ۔۔۔چہرے پے مسکان اور دل خون کے آنسو رو رہا تھا ۔۔۔فنکشن ختم ہوا تو ۔۔۔ناصر بہت خوش تھا ۔۔۔بولا تمہاری آ ج کی پر فارمنس لاجواب تھی ۔۔۔میرے تمام دوست بہت خوش ہیں ۔۔۔آج روشنی واقعی تم نے میری شادی میں روشنی ڈال دی ہے ۔۔۔کل بارات ہے ۔۔۔لازمی آنا ۔۔۔میں نے صحت کی خرابی کا بتا کربارات میں شرکت نہ کرنے سے پیشگی معذرت کی ۔۔۔اور رات کے اندھیرے میں گھر کو نکل پڑی ۔۔۔ناصر نے بار ہا روکنے کی کو شش کی پر میں اپنی ضد پر اڑی رہی۔۔۔ آ خر کار میری ضد سے مجبور ہو کر ناصر نے مجھے گھر جا نےکی اجازت دے ہی دی ۔۔۔ میں جب گھر پونچی تو صبح کے چار بج رہے تھے ۔۔۔ناصر کی جدائی کے غم ، اپنوں کے ظلم و ستم اور دنیا کی بے رخی اور بے اعتنائی نے مزید زندہ رہنے کے حو صلے کو چھین لیا ۔۔۔سچ کہتے ہیں کہ یک طرفہ محبت و عشق آدمی کو مار دیتا ہے ۔۔۔زندگی کی مختصر کہا نی میں جہا ں کچھ لمحے سکوں و راحت کے ملے وهاں کچھ اپنوں سے ایسے زخم لگے جو بھلائے نہیں بھولتے۔۔۔ زندگی کے آخری لمحات میں اللّه پاک سے شکوه و شکایت تو نہیں ، بس کچھ گزارشا ت ضرور ہیں ۔۔۔ مثلا کہ اے مولا تو ہمیں ایسے جہاں میں پیدا ہی کیو ں کرتاہے کہ ۔جہاں پر ۔۔۔جب ماں ،باپ جیسی شفیق ہستیاں بھی ہمیں اپنی اولاد کا حق دینے سے قاصر ہوں ۔۔۔جب سگا بھائی ہمیں بہن ماننے سے انکاری ہو ۔۔۔جب بہنیں ، بہن ما ننے سے انكاری ہوں ۔۔۔جب معاشرہ ہمیں قبول کرنے سے انکاری ہو ۔۔۔جب لوگ ہمیں ازراہ تفنن کا زریعہ سمجھیں ۔۔۔جب ہم کسی سے محبت نہ کر سکیں ۔۔۔جب ہم شادی کر کے کسی کی بیوی بن کر با عزت زندگی نہ گزار سکیں ۔۔۔جب ہم اولاد پیدا کرنے کی صلا حیت سےعاری ہوں ۔۔۔جب ہم کسی غم کی وجہ سے اپنوں سے لپٹ کر رو نہ سکیں ۔۔۔اور یا الہی جس جہاں میں ہمارے رونے کو رونا نہ سمجها جاۓ ۔۔۔جہاں ہمارے دکھوں کا مداوا کرنے والا کوئی نہ ہو ۔۔۔جہاں پر مشکل وقت میں ہمارا ساتھ دینے کوئی نہ ہو ۔۔۔ایسے جہاں میں ہمارے زندہ رہنے کا کیا فائده ؟؟؟
آخر میں اس دنیا سے جاتے ہوئے ناصر اور ان جیسے لوگوں سے بس اتنا سا گلہ ہے کہ خدارا ہم پیار کے بھوکے لوگوں سے میٹھے اور پیار بھرے لهجهے میں باتیں نہ کیا کریں ۔۔۔اور نہ ہی ہمارے ہجر کا ساتھی بنیں ۔۔۔کیوں کہ ہم محبت کے بھو کے اورترسے، تنہا لوگ ان سے دل سے محبت کر بیٹھتے ہیں ۔۔۔اور پھر انکے بچھڑ نے یا رستہ بدلنے پر ھمارا اس دنیا میں رہنا محال ہو جاتا ۔۔۔آسمان پر کہیں چاند بادلوں سے اٹکیلیاں کر رہا تھا ۔۔۔اور دور کہیں کوئی اپنی نئی زندگی کی شروعات کے سنہری خوب لیے مسهری پر لیٹا تھا۔۔۔ایسے میں ایک کھسری ناکام محبت اور دنیا کی بے رخی سے دل برداشتہ اپنی نبض کاٹ کر خون میں لت پت کہیں دور کسی دوسری دنیا جا رہی تھی ۔۔۔ اور کانوں میں ایک آواز بار ،بار گونج رہی تھی ۔۔۔
سنو ! میری شادی پر آؤگی نا ۔۔۔اور ہاں وہاں پر ایسے ناچنا کہ میرے تمام دوست خوش ہو جائیں۔۔۔ تمهاری پر فارمنس کو لوگ مدتوں یاد رکھیں۔۔۔جانو دیکھو !ہماری دوستی کی آج ساتوی سالگرہ ہے۔۔۔
Comments
Post a Comment