تھپڑ !!!تحریر؛ محمّد عدنان انجم ۔۔۔موبائل نمبر0320.7780152
عادتیں،خصلتیں اورکردارنسلوں کا پتہ دیتے ہیں ۔۔۔ورنہ کسی بھی فرد کی پیشانی پر اسکی قوم،قبیلےیا مذھب کا نام درج نہیں ہوتا ہے ۔۔۔گھر کی تربیت انسان کا اچھا یا براکردار بناتی،سنوارتی یا بگاڑتی ہے۔۔۔کوئی بھی شخص اپنی عمر اور قد کاٹھ سے بڑا نہیں ہوتا ہے۔۔۔بلکہ انسان بڑا ہوتا ہے،بڑی سوچ سے ،ایثارسے،قربانی سے،اپنی غلطیوں اور زیادتیوں پرمعافی مانگنے سے ،اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیو ں پر معاف کرنے اور صلہ رحمی سے ۔۔۔پنجاب کی
دسمبر کی آخری تاریخوں کی ایک یخ بستہ صبح کو ہم چند دوست گورنمنٹ ڈگری کالج( میانوالی) جانے کیلیے اپنے آبائی شہر (موسیٰ خیل) کے اڈے پر بس کا انتظارکر رہے تھے ۔۔۔سخت سردی کی بدولت سب کی ہچکی بندھی ہوئی تھی ۔۔۔ ہر کوئی بار ،بار اپنی گرم چادر اور مفلروں کو اپنے چہرے اور بدن پر ٹھیک سے ڈھانپتا تا کہ اس یخ بستہ ٹھنڈ جو ہڈیوں تک اتررہی تھی، خود کو بچاسکے ۔۔۔
خوش قسمتی سےہمارا انتظار زیادہ طویل نہیں ہوا۔۔۔ کیونکہ دور سے نظر آنےوالی مسافر بس اس بات کا اشارہ کر رہی تھی کہ ۔۔۔ہمارے صبر آزما انتظار کو قرار کا وقت آن پہنچا ہے ۔۔۔بس جونہی اپنے مقررہ اسٹاپ پر پونچی ،تو یخ بسته سردی سے پریشان مسافر بس پر ایسے چڑھ دوڑے جیسے بھوک وافلاس سے نبرد آزماافراد کسی مذہب و مسلک کی تفریق کے بغیرکسی وسدی مسجد کے آگے تقسیم ہونےوالی نیاز یاکسی مندر کے آگے بٹنے والی پرساد پر اپنا حق جتا تےہوۓ چڑھ دوڑتے ہیں ۔۔۔ کچھ خوش قسمت مسافر تو جلد بس پر سوار ہو گئے مگر بےتحاشہ رش اور دهكم پیل کی وجہ سے زیاده تر مسافر بس پر چڑھنے کی کوشش میں ابھی مصروف عمل ہی تھے کہ بس کے کلیزنے دهكم پیل اور رش سے تنگ آکر مسافروں کے بس کے اندر جانے والامخصوص دروازہ، بس کی اندر والی طرف سے بند کر دیا ۔۔۔ كلیز کی اس حرکت نے سردی سے نبرد آزما مسافروں پر جلتی پرتیل کا کام کیا ۔۔۔وه زور زور سے بس کو پیٹنے اور کلیز کو مغلات بکنےلگے ۔۔۔ بس کے ڈرائیور نے موقع کی نزاكت کو بھانپتے ۔۔۔اور کسی بھی بڑے نقصان یا حا دثہ سے بچنے کیلیے ،بس کو جاۓ وقوع سےبھگانے کو غنیمت سمجھا ۔۔۔ چناچہ دیکھتے ہی دیکھتے بس ہماری نظروں سے اوجھل اوراگلی منزل کو بڑھ گئی ۔۔۔
کلیز کی دروازه بند کرنے کی حرکت نے دوسرے مسافروں کی طرح ہم دوستوں کو بھی غصے سےچراغ پا کر دیا ۔۔۔ کلیز کی گستاخی پر ہم سب دوست تڑپ اٹھے ۔۔۔وه کہتے ہیں کہ جوانی دیوانی ہوتی ہے ۔۔۔جوانی اور كالج میں پڑھنےکا زعم اکثر ایسے ایسے کام کروا دیتا ہے ۔۔۔جومستقبل میں زندگی بھر کا روگ اور دائمی زوال و شرمندگی کا باعث بن جاتے ہیں ۔۔۔
لہذا ہم دوست بھی اسی زعم اور تكبر کے زیر اثرانجا م سے يكسر بے خبر،
انتقام کے جذبہ سے سرشار ،كالج جانے کا ارا ده ترک کر کے،دوسری گاڑی پکڑ کر ، اس بس اڈے پر جا دھمکے،جو اس بس کا آخری اسٹاپ تھا۔۔۔۔ وہاں پر پہنچتےساتھ ہی دیوانہ وار کلیز کو ڈھونڈ نےاور للكارنے لگے ۔۔۔وه بیچارہ آئی افتادو یخ بستہ ٹھنڈ سے بے خبر اپنے گیلے ،میلےکچیلے اور گریس زدہ کپڑوں میں بس اڈے سے ملحقه ہوٹل سے كپكپاتے ہاتھوں کیساتھ چا ئےکا کپ پکڑے ،ناشتہ کر رہا تھا۔۔۔ہمیں دیکھتے ہی وه سہم سا گیا۔۔۔اور منہ سے بس اتنا ہی ادا کر سکا ، کہ میں بھوکا ہوں؟؟؟ہم جو انتقام کی آگ میں اندھے ،غصے کے گھوڑے پر سوار تھے ،بھلا کب اسکی سننے والے تھے اور کب اسکی بھوک کا احساس کرکہ رکنے والے تھے ؟؟؟لہذا صبر و تحمل کو بالا تاک رکھتے ہوئے،بغیر کسی جمع ،تفریق کے ،ہم نے
آؤدیکھا نہ تاؤ اور اس بچارے پر پل پڑے۔۔۔کالج کے یو نیفارم میں ہونے کے سبب ۔۔۔ دوسرے شہروں سے آنے والے،ہمارے کا لج کے لڑ کوں نے کالج کی جہلانہ ریت و رواج کو ملحوظ خا طر رکھتے ہوئے، بغیر فریقین کا موقف جاننے کی زحمت کیۓ ،بغیر فریقین میں غلطی کا ادراک کیۓ۔۔۔ اور نیز بغیر کسی وقت کے ضیاع کےہمارا ساتھ دینے کو اپنا فرض العین سمجھا کہ مبادا کہیں تیسری پارٹی بیچ، بچاو کروانے میں کامیاب ہو کر ان کو اپنی ہمت و بہادری کی داستان رقم کرنے سے محروم نہ کر دے۔۔۔سوانہو ں نے بھی ہما ری دیکھا ،دیکھی اس بیچارے پر ہلا بول کر انسانیت اور اخلاقیات کا وه جنازہ نکالا کہ يقیناجنگلوں میں رہنے والے خونخوار درندوں نے خود کو چیر ،پھاڑ کر اور صہراوں میں رہنے والے خطرناک کیڑوں نے خود کو ڈس کر خودکشی کر لی ہو گی کہ مبادا وه تقدیر کی ستم ظریفی کے سبب انسانی اسیری میں نہ آجائیں۔۔۔اور جہاں پر ہر دن انکے کیلیے میدان كربل کی مثل ہو ۔۔۔مکوں کی بارش،کھینچا تانی اور ادھر سے ادھر دکھوں سے جلد ہی اسکے بوسیدہ اور پیوند لگے کپڑے تار، تار اور جسم کپڑوں سے آزاد ہو گیا ۔۔۔ ہم اسکے ننگے جسم سے پھوٹنے والےخون، اس کے جسم پر پڑنے والے مکوں اور لاتوں کے نشانات اورٹھنڈ کے اثرات کی پرواہ کیۓ بغیر اس بیچارے پرظلم کے وه پہا ڑ توڑ رہے تھے کہ خدا کی پناہ انسانیت و اقدار شر ما جائیں ۔۔۔ آج ہم وقت کے فرعونوں پر نہ ہی زخموں کا اور نہ ہی چیخ و پکار کا کچھ اثر ہو رہا تھا ۔۔۔ہم بڑی بے نیازی اور سنگدلی سے مسلسل اسے مار ے اور پیٹے جا رہے تھے۔۔۔جیسے وه کوئی انسان نہ ہو بلکہ ایک خطرناک جنگلی درندہ ہو، جیسا کا زندہ رہنا بنی نوع انسان کیلے خطرنا ک ہو یا وه کسی اجنبی سیارے سے آیا ھوا،ایسا اجنبی فرد ہو جسکے وجود سے ہمارے کرہ ارض کو سنگین خطرہ لاحق ہو ۔۔۔اور مزید بر آں ہم تب تک اس پر جبر و بربریت کے پہاڑ تو رتے رہے ،کہ جب تک وه ، بالکل بے ہوش ہو کر زمیں پر ساکت و بے سدھ نہ ہو گیا ۔۔۔اس کے بےہوش ہونے کے بعد ہم فاتحانہ اور تكبرانہ چال چلتے،اڈے پر موجود دوسرے ڈرائیورو ں اور کلیزوں کو دهكما تے اور گالیو ں بکتے ہوئے
گھروں کی جانب روانہ ہو گئے ۔۔۔گھر واپسی پر جب غصے کے بادل چھٹے اور ٹھنڈ ے دل سے تمام و اقعہ کا از سرے نو جائزه لیا ۔۔۔تو بغیر کسی لعل ولیت کے خود کو قصور وار پا یا ۔۔۔ اڈے سے
۔۔۔اس واقعہ پر مجھے اب اپنے کردار پر شدید ندامت و شرمندگی محسوس ہو رہی تھی ۔۔۔دل میں بار بار کلیز کا ڈرا سہما چہرا نظر آتا ۔۔۔اور ایسا محسوس ہوتا جیسے وه اپنے اوپر ہونے والی ناجائزظلم و زیادتی پرانصاف مانگ رہا ہو ۔۔۔ دماغ ہر باردل کو دلا سہ دیتا کہ آپ كلیز کی گستاخی پر سبق سکھانے پر حق بجانب تھے ۔۔۔پر نہ جانےدل کے نہاں خانے سے ضمیر کی آوازایسے اٹھتی جیسے ویرانے میں چیخ جو پورے ماحول میں وحشت طا ری کر دیتی ہے ۔۔۔بالکل اسی طرح وه آواز میرے دل کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ۔۔۔ اور دماغ کے جھوٹے،پر فریب دلاسوں حوصلوں اورہمتوں کو ریت کی دیوار کی طرح ڈھ دیتی ۔۔۔ كلیز کے بے گنا ہ ہونے کی مالا جنپنا شروع کر دیتی ۔۔۔جس سے نہ صرف میرا دل سمندر کی جھاگ کی طرح يكدم بیٹھ جاتابلکہ میرا امن و سکون بھی غارت ہو جاتا ۔۔۔
اس واقعہ کا علم شاید والد صاحب کو بھی ہو چکا تھا ۔۔۔اسلیے وه رنجیده اور غصے میں تھے ۔۔۔ گھر میں پنہچتے ہی مجھے اپنے پاس بلالیا ۔۔۔اوربڑی بے صبری سے بس والے واقعہ کے متعلق تفصیلات طلب کیں۔۔۔ میں بڑی کوشش اور ہمت کے باوجود ،ابا جی کے ڈر سے ضمیر کی آواز پر لبیك کہتے ہوئے حق سچ کی بات کرنے اور اپنے آپ کو مورد الزام ٹھہرا نے کی جسارت نہ کرسکا ۔۔۔اور
اباجی کے سامنےاپنی اور اپنے دوستوں کی غلطی اور حماقت کا ا عتراف کرنے کی ہمت نہ کر سکا ۔۔۔بلکہ الٹا وقوعہ کا تمام الزام كلیز پر لگا کر ،خودکو اور دوستوں کو معصوم ثابت کرنے کی کوشش میں ضمیر کے بوجھ تلے دهنس گیا ۔۔۔ جس نہ صرف میں اپنی بلکہ ابا جی کی نظروں میں بھی مزید بونا ہو گیا۔۔۔
ابا جی جہاںدیده اور زیرک انسان تھے ۔۔۔وه میرے چہرے کے تغیرات اور جسم کی حرکات سكنات سے میرے جھوٹ اور سچ کو جانچ لیتے تھے۔۔۔سو وه جان چکے تھے کہ خطا مجھ سے اور میرے دوستوں سے سرزد ہوئی ہے ۔۔۔
مجھے سوچوں میں گمزن دیکھ کر ۔۔۔ابا جی نے کھنکھارکر گلہ صاف کیا ۔۔۔اور نحیف آواز کے ساتھ بولے ۔۔۔بیٹا مجھے بڑے دکھ سے کہنا پڑ رہا ہے کہ آج توں نے میری اور سارے خاندان کی زندگی بھر کی محنت و مشقت سے کمائی گئ عز ت کی دهجیا ں اڑا دیں ہیں ۔۔۔تمہا رے اس عمل پر آج دنیا سوچتی ہو گی ۔۔۔کہ میں نے جواپنی ساری زندگی ،اخوت برابری ،صلہ رحمی، برداشت عدل و انصاف ،رواداری ،محبت اور شرافت کا درس دیا ہے ۔۔۔وه ایک ڈھونگ تھا ،ایک دھوکہ تھا !!!۔۔۔اور
اور میں نے جو ہمیشہ جھوٹ ،چغلی ،دھوکہ دہی ،ناانصافی ،ظلم ،نفرت ،تكبر ،حسد اور منافقت کے خلاف لڑتا رہا اور انکے خلاف ڈٹا رہااور وقتا فوقتا مختلف مواقع پر لوگوں کی اصلاح و تربیت کرتا رہا ۔۔۔وه سب ایک ناٹک تھا ۔۔۔ایک دکھا وا تھا!!!۔۔۔ بس
بیٹا یاد رکھنا عزت و وقار رب تعالی کی وه کرم نوازی ہوتی ہے ۔۔۔جس کی عطاتو بڑی ،محنت و ریاضت سے ہوتی ہے ۔۔۔پرجاتے ہوئے ،اسے لمحوں کی لغزش کی ضرورت ہوتی ہے۔۔۔رہی بات غریبوں اور لاچاروں پر ظلم و بربریت کی تو اس عمل پر میرے بیٹے عرش معلیٰ بھی تھرتھرا جاتا ہے ۔۔۔جتنی جلدی اونٹ کی کوہان میں چھری نہیں اترتی ۔۔۔اس سے زیادہ جلدی کسی غریب کی آہ بارگاہ الہی میں پونچتی اور مقبو ل ہوتی ہے ۔۔۔اور بیٹا یاد رکھنا اللّه پاک ،بڑا غیرت والا ہے ۔۔۔وه اپنے بندوں پر واجب فرائض و حقوق تو اپنی رحمت کے صدقے معا ف کر دیتا ہے۔۔۔پر اپنے بندوں پر ظلم کا حساب ضرور لیتا ہے ۔۔۔اور اسی دنیا میں لیتا ہے ۔۔۔بیٹا جب بھی دیکھنا کہ کوئی کسی غریب و كمتر پر مثلا عرف عام میں ہم ایسے لوگوں کو نائی،موچی،قصا ئی دھوبی ،حلوائی،لوہار ،كمهار ،دركهان،کوچوان ،دربان یا جدید دور میں ہم پیزا بواے،ڈلیوری بواے ،بس کلیز ،ویٹر ، اوبر ،کریم ڈرائیور، سیلز مین یا لفٹ اپریٹر وغیرہ پر انکی معمو لی لغزش کی وجہ سے سخت پکڑ کرتا ہے ،ان سے لڑتا ،جھگڑتا اور مارتا ہے۔۔۔اور ایسا کرنے سے وه خود کو بہادر و جری ثابت کر نا چاہتا ہے یا اپنی کوئی دوسری خفت مٹانا چاہتا ہے ۔۔۔تو بیٹا یاد رکھنا ایسا کرنیوالا ہر فرد لازمی ہے کہ ،کسی گهٹیاقبیلے یا قوم سے تعلق رکھتا ہو،کیونکہ ایسے کام بس انہیں ہی زیب دیتا ہے ۔۔۔بیٹا ،دنیا کا ہر مذہب انسانیت کا درس دیتا ہےاور وه ،مرد و زن پر ظلم کی نفی کرتا ہے ۔۔۔ میرے پیارے بیٹے ہم مسلمان تو جس دین کے ماننے والے ہیں ۔۔۔وه دین تو تمام انسانوں کو ایک ،ماں و باپ سے پیدائش کو مانتا ہے ۔۔۔جو رنگ و نسل،قوم و قبیلے ،پیشے و کارو بار کی بنیاد پر برتری کے خلاف ہے ۔۔۔کیوں کہ اس بنیاد پر برتری تكبر کو جنم دیتی ہے ۔۔۔اور احادیث کے مطابق جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر تكبر ہو گا ۔۔۔وه جنت کی خوشبو تک نہ سونگھ سکے گااور جہنم اسکا ٹھکانہ ہوگا ۔۔۔میرے بیٹے مجھے افسوس تو یہ ہے کہ ،کلیز پر ہونے والا ظلم اس دین کے ما ننے والوں نے کیا ۔۔۔جس دین میں جانوروں کے بھی حقو ق متعین ہیں ۔۔۔
۔۔۔ اورہاں ؛ دوسری طرف ،اچھی تعلیم و تربیت ؛ اچھی قوم کا شخص ہمیشہ غریب پرور ہو گا ،اور ہمیشہ انکے حق کے لیے لڑے گا ۔۔۔
ابا جی کی باتیں میرا کلیجه چھلنی کر رہی تھیں ۔۔۔میری آنکھو ں سے باقاعدگی سے آنسو جاری تھے ۔۔۔جو اس بات کی گوا ہی تھے ۔۔۔کہ میں اپنے کیۓ پر سخت شر مندہ ہوں ۔۔۔كلیز سے اور اپنے رب سے معافی کا طلب گار ہوں ۔۔۔
ابا جی نے بھی شاید میرے احساس کو جان لیا تھا ۔۔۔اسلیے آہسته سے بولے بیٹا جتنا جلدی ہو سکے خود اور دوستوں سے درخواست کر کے كلیز کو منا لو ،مبادا کہ رسی کھنچ جاۓ اور تم ہتھ ملتے رہ جاو ۔۔۔ابا جی اٹھنے لگے ،تو میں نے ابا جی سے روتے ہوئے بولا ۔۔۔ابا جی میں خود تو چوری ،چپکے معافی مانگ لوں گا۔۔۔پر اپنے دوستوں کو کیسےایسا کرنے پر راضی کروں گا؟؟؟ جس ابا جی نے وه تار یخی جملے بولے جنہوں نے میری زندگی بدل کر رکھ دی ۔۔۔وه بولے میرےپیا رے بیٹے آدمی،جس مقصد کیلئے ،دن ،رات ایک کر دے ،اور اسکو سچے دل سے چاہے اور اس کو حاصل کرنے کیلیے خوب محنت کرے جس محنت کے دوراں وه بھوک ،دھوپ ،سردی و گرمی کی پرواہ نہ کرے ۔۔۔تو بیٹا دنیا کی کوئی چیز،کوئی طاقت اس شے کو اس شخص کو پانے سے نہیں روک سکتی ۔۔۔بلکہ ایک وقت تو رو ے زمین کے سارے عناصر اس سازش میں مصروف عمل ہو جاتے ہیں ،جس سازش کے زیر اثر اس چیز نے اسے ملنا ہوتا ہے ۔۔۔ یا آسان لفظوں میں تیری محنت ،خلوص اور یقین کودیکھ کر دنیا کی ہر چیز اسے تم سے ملا نے میں تیرے ساتھ دعا میں تیرے حق میں رب کے سا منے جت جاتی ہے ۔۔۔پر اس کے لیے تیری ،مرضی تیری محنت اور تیری منزل کو پانے کی شدید محبت شرط ہے ۔۔۔
اور ہاں اللّه پاک کے ہاں محفل میں گناہ کی محفل میں معافی ،جبکہ اکیلے میں گناہ کی اکیلے میں معافی ہے ۔۔۔
ابا جی کی باتیں حرف با حرف سچ ثابت ہوئیں۔۔۔سچی محنت و لگن سے کچھ ہی دنوں میں ،میں نہ صرف دوستوں کو كلیز سے معافی پر راضی کر لیا ۔۔۔ بلکہ كلیزسے لوگوں کے سامنے معافی،تلافی بلکہ دوستی بھی ہو گئی۔۔۔اور سب سے بڑھ کر مستقبل کی ایک راہ متعین ہوگئی،ایسی راہ جس پر چل کر غریب کے تن سے کپڑے تا ر ،تار کرنے کے بجاے،انہیں اس موسم کے مطابق کپڑے پہناےجائیں۔۔۔جہاں دکھ و درد کا مداوا کیا جاۓ ۔۔۔جہاں غریبوں کے آنسو پونچھے جائیں۔۔۔جہاں پسے ہوئے طبقات کی مدد کر کے انہیں اپنے پاؤں پر دوبارہ کھڑا کیا جائے ۔۔۔ کیونکہ ایسا کرنے سے نہ صرف آدمی
ضمیرپر پڑے اپنی لغزشو ں کے بوجھ سے
چھٹکا را حاصل کر لیتا ہے ۔۔۔بلکہ وه خود کو ہلکا ،پهلكابھی محسوس کرتا ہے، نیز وه اپنے مقصد حیات سے بھی واقفیت حاصل لیتا ہے ۔۔۔ اور معرفت کی راہ پر چل پڑتا ہے ۔۔۔ایک ایسی رہ پر جہاں ظاہری طور پر ملوں اور فیکٹریوں کا مالک کسی موچی یا قصائی کے سامنے ہاتھ باندھ کر اسرار و رموز کے سبق حاصل کرنے کی تگ و دو کر رہا ہوتا ہے ۔۔۔یا ظاہری کوئی پروفیسر یا ڈاکٹر اپنی میں کو مارنے کے لیے اور تزکیہ نفس کے لیے کسی حلوائی کی جوتیاں اٹھا ے سر گر دان نظر آتا ہے ۔۔۔۔
عا
دتیں،خصلتیں اورکردارنسلوں کا پتہ دیتے ہیں ۔۔۔ورنہ کسی بھی فرد کی پیشانی پر اسکی قوم،قبیلےیا مذھب کا نام درج نہیں ہوتا ہے ۔۔۔گھر کی تربیت انسان کا اچھا یا براکردار بناتی،سنوارتی یا بگاڑتی ہے۔۔۔کوئی بھی شخص اپنی عمر اور قد کاٹھ سے بڑا نہیں ہوتا ہے۔۔۔بلکہ انسان بڑا ہوتا ہے،بڑی سوچ سے ،ایثارسے،قربانی سے،اپنی غلطیوں اور زیادتیوں پرمعافی مانگنے سے ،اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیو ں پر معاف کرنے اور صلہ رحمی سے ۔۔۔

Comments
Post a Comment